ڈپریشن کی دوائیں بھی بیکٹیریا میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت بڑھا رہی ہیں

ویب ڈیسک  جمعـء 30 نومبر 2018
ڈپریشن کی دوا سے صرف 30 دن تک سامنا ہونے پر بیکٹیریا میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت 5 کروڑ گنا بڑھ گئی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ڈپریشن کی دوا سے صرف 30 دن تک سامنا ہونے پر بیکٹیریا میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت 5 کروڑ گنا بڑھ گئی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

برسبین: آسٹریلوی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ ڈپریشن کے علاج میں عام استعمال ہونے والی دوائیں بھی جرثوموں میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت بڑھا کر انہیں غیرمعمولی طور پر مضبوط بنا رہی ہیں۔ اگرچہ ماضی میں ڈپریشن کی دواؤں (اینٹی ڈپریسینٹس) کے مختلف منفی اثرات سامنے آتے رہے ہیں مگر اِن کا تعلق انسان کی دماغی اور جسمانی صحت ہی سے تھا۔ لیکن یہ پہلا موقعہ ہے کہ جب ان کا تعلق جرثوموں (بیکٹیریا) میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت سے بھی دیکھنے میں آیا ہے۔

برسبین، آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف کوینزلینڈ میں ’’ایڈوانسڈ واٹر مینیجمنٹ سینٹر‘‘ سے وابستہ جیانہوا گوو اور ان کے ساتھیوں نے ’’ای کولائی‘‘ نامی جرثومے پر تحقیق کے دوران یہ تشویشناک دریافت کی ہے۔ کئی ماہ تک جاری رہنے والی اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ ڈپریشن کی عام اور مقبول دواؤں میں شامل ایک اہم مرکب ’’فلوکسیٹائن‘‘ (fluoxetine) سے صرف تیس دن تک سامنا ہونے پر جرثوموں میں انتہائی مؤثر اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت میں 5 کروڑ گنا تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ یقیناً یہ بہت خطرے کی بات ہے۔

البتہ، تجربہ گاہ کے ماحول میں یہ تحقیق صرف ای کولائی بیکٹیریا پر کی گئی ہے جبکہ ابھی اسے دیگر اقسام کے جرثوموں پر، خاص کر بیماریاں پھیلانے والے جراثیم پر آزمایا جانا باقی ہے۔

واضح رہے کہ قبل ازیں ماہرین کی یہی ٹیم ہینڈ واش اور ٹوتھ پیسٹ کے ایک عام جزو ’’ٹرائی کلوسان‘‘ پر تحقیق کرکے ثابت کرچکی ہے کہ اس کے باقاعدہ استعمال سے جراثیم میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت بڑھ جاتی ہے۔ البتہ، تازہ تحقیق کہیں زیادہ تشویشناک ہے کیونکہ اس سے ایک طرف تو یہ پتا چلتا ہے کہ فلوکسیٹائن کی حامل 11 فیصد دوائیں ہمارے جسم میں پہنچنے کے بعد بالکل بھی تبدیل نہیں ہوتیں تو دوسری جانب یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جتنے لمبے عرصے تک جرثوموں کا سامنا فلوکسیٹائن سے رہے گا، جرثوموں میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت بھی اسی قدر بڑھتی جائے گی۔

اس تحقیق کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’اینوائرونمنٹ انٹرنیشنل‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔